تہران،31مئی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)ایرانی پاسداران انقلاب کی قُدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی نے 2012 میں ایرانی فوجی مداخلت کے وقت سے ہی شام میں "سوختہ زمین" کی پالیسی پر انحصار کیا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں افغان ، پاکستانی اور عراقی ملیشیاؤں کے ہزاروں ارکان کو "انسانی سمندر" کی تدبیر کے طور پر جھونک دیا گیا اور ہزاروں فوجی اہل کاروں کو دشمن کی فرنٹ لائن توڑنے کے لیے قربان کیا گیا تا کہ مقابل کے ہاتھ سے ٹھکانوں کو واپس لیا جا سکے۔ یہ وہ ہی پالیسی ہے جس کا سہارا ایران نے عراق کے ساتھ ہونے والی جنگ( (1980-1988میں لیا تھا۔
شام کی جنگ میں کودنے کے ساتھ ہی کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ایرانی میڈیا ان بھرتی شدہ جنگجوؤں کی درجنوں ہلاکتوں کا اعلان نہیں کرتا جن کو ولایتِ فقیہ کا میڈیا ’’حرم کے مدافع‘‘یا ’’اہلِ بیت کے مقامات کے مُدافع‘‘کا نام دیتا ہے تاہم درحقیقت یہ خطے میں ایرانی توسیعی منصوبے کا دفاع کرنے والے ہیں۔تاہم شام میں پاسداران انقلاب اور اس کے زیر انتظام ملیشیاؤں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں نے ایرانی پاسداران کی قیادت کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے فائدہ مند ہونے پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ ایرانی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ ہلاکتیں 3 ہزار کے قریب ہیں جب کہ اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تعداد تقریبا 10 ہزار ہے۔
اس سلسلے میں فارسی زبان کی ویب سائٹwarreports.org" جو عراق اور شام میں ایرانی فوجی مداخلت کی کوریج کرتی ہے.. اس نے قاسم سلیمانی کی ایرانی ٹی وی سے بات چیت کا وڈیو کلپ جاری کیا ہے۔ کلپ میں سلیمانی 80ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے دوران اپنائی جانے والی سوختہ زمین کی پالیسی اور مقاصد کے حصول کے لیے بڑی تعداد میں ایرانی میرینز کو قربان کرنے کی تفصیلات بتا رہا ہے۔سلیمانی نے 1987 میں عراق کے شہر بصرہ کے محاصرے کی ایرانی فوج کی کارروائی کی ناکام کی وجوہات بھی بیان کیں۔ یہ اُن سب سے بڑی کارروائیوں میں سے ایک ہے جن میں ایران کو بدترین ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں اس نے جنگ بندی کو قبول کیا۔سلیمانی نے اس ہزیمت کا جواز فوجی اہل کاروں اور رضاکاروں کی کمی کو قرار دیا۔ ایرانی مرشد اعلی کے مشیر برائے عسکری امور اور پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر جنرل رحیم صفوی کا کہنا ہے کہ اس معرکے میں ایران کی 11 ہزار ہلاکتیں ہوئیں جب کہ 53ہزار افراد زخمی ہوئے۔
پاسداران انقلاب ایران میں مقیم تقریبا 20 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کو بھرتی کر رہی ہے۔ اس بھرتی کے واسطے ان کی غربت اور مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقل قیام اور مالی رقوم کی پیش کش کی جاتی ہے تا کہ وہ شیعہ آزادی فورس میں شمولیت اختیار کر لیں جس کا اعلان قدس فورس کے سابق قائد جنرل محمد علی فلکی نے کیا تھا جو شام میں ایرانی افواج کے ایک کمانڈر بھی ہیں۔
فلکی کے مطابق شیعہ آزادی فورس کی ملیشیائیں اس وقت شام میں ایرانی فورسز کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں۔ ان میں پاکستانی زینبیون، عراقی حیدریون، عراقی حزب اللہ کی ’’حزب اللہ‘‘فورس اور شامی حزب اللہ ملیشیا شامل ہے۔ یہ تمام جنگجو ایرانی پاسداران کے حکم کے تحت ایک وردی ، ایک پرچم اور ایک عسکری انتظام کے ساتھ برسرِ جنگ ہیں۔ان ملیشیاؤں کے ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کو ایران کے دور دراز دیہات اور علاقوں میں دفنایا جاتا ہے۔ اسی طرح عراقی ملیشیاؤں کے جنگجوؤں کی ایرانی شہروں میں تدفین میڈیا اور لوگوں کی نظروں سے دور رہ کر عمل میں لائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ایران اپنی پالیسی کے تحت ہمیشہ سے براہ راست مداخلت کی تردید کرتا رہا ہے اور اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ اس کی مداخلت محض مشاورتی نوعیت کی ہے۔
عسکری ماہرین کے مطابق اگرچہ ان ملیشیاؤں کو بشار کی فوج ، ایرانی افواج اور روسی فضائیہ کی معاونت حاص ہے تاہم اس کے باوجود روزانہ ان کے درجنوں عناصر مارے جا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ لڑائی کا نظریہ نہ ہونا اور معرکوں میں "اجرتی قاتلوں" کے طور پر شریک ہونا ہے۔ ماہرین ان ملیشیاؤں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو جنگجوؤں کی خراب تربیت اور اپوزیشن کی پیش قدمی روکنے کے لیے انہیں اندھادھند جھونکنے کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ان ملیشیاؤں نے انسانیت کے خلاف بھیانک ترین جرائم کا ارتکاب کیا۔ انہوں نے لاکھوں شامی شہریوں کو قتل کیا اور لاکھوں شہری اپنے شہروں اور دیہات سے ہجرت کر گئے۔ بشار کی افواج اور روسی طیاروں نے رہائشی عمارتوں پر بارودی ڈرم اور کلسٹر بم برسانے کے علاوہ شہریوں کو کلورین اور سیرین گیس کا نشانہ بنایا۔شام میں سوختہ زمین کی پالیسی اور انسانی سمندر کو قربان کر دینے کی پالیسی پاسداران انقلاب کی قیادت کے طرزِ فکر کی عکاسی کرتی ہے جن میں قاسم سلیمانی سرِفہرست ہے۔
شام میں سلیمانی کے جرائم کا سلسلہ پر امن انقلابی تحریک کے آغاز کے ساتھ ہوا۔ اس نے بشار حکومت کو اس تحریک کو کچلنے کے لیے خون ریز تشدد پر اکسایا اور مکمل سپورٹ کی۔ اسی واسطے امریکا نے 18مئی 2011کو شامی صدر بشار الاسد اور دیگر سینئر اہل کاروں کے ساتھ قاسم سلیمانی پر بھی پابندیاں عائد کیں کیوں کہ وہ شامی حکومت کو مادی سپورٹ پیش کرنے میں ملوث رہا۔ امریکا نے سلیمانی کو معروف دہشت گرد کا درجہ دیا اور کسی امریکی شہری کو اس کے ساتھ کسی قسم کے اقتصادی معاملات کی اجازت نہیں ہے۔24 جون 2011کو یورپی یونین نے قُدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی ، ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل محمد علی جعفری اور پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر حسین طائب کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ ان افراد پر شام کے انقلاب کو کچلنے کے لیے شامی افواج کو ساز و سامان فراہم کرنے کا الزام تھا۔ ستمبر 2011 میں سوئس حکومت نے بھی قاسم سلیمانی کا نام یورپی یونین کی جانب سے عائد الزامات کے ہی تحت زیر پابندی شخصیات کی فہرست میں شامل کر لیا۔
اقوام متحدہ نے اگست 2012میں قرارداد نمبر 1747کے تحت قاسم سلیمانی کا نام اُن افراد کی فہرست میں شامل کر لیا جن پر شامی حکومت کو ایرانی اسلحہ فراہم کرنے اور میدانی ، لوجسٹک اور مادی سطح پر عسکری مداخلت کے سبب پابندیاں عائد ہیں۔
قدس فورس کا یہ کمانڈر 2012ء سے شام کے معرکوں میں پاسداران انقلاب ، حزب اللہ اور عراقی ملیشیاؤں کی مداخلت کو انتظامی طور پر چلا رہا ہے۔اس کے علاوہ سلیمانی نے خود کئی معرکوں میں شرکت کی۔ ان میں لاذقیہ اور حلب کے نواح میں ہونے والے معرکے شامل ہیں۔ اس نے کئی معرکوں کی نگرانی بھی کی جن میں آخری کارروائی حلب کا معرکہ تھا۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں شامیوں کو جبری ہجرت کرنا پڑی۔ اس وقت سلیمانی حلب اور جنگ سے متاثرہ شام کے دیگر صوبوں میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کارروائیوں کی نگرانی کر رہا ہے۔سلیمانی تقریبا 70ہزار جنگجوؤں کو شام لے کر آیا جن کا تعلق عراقی ، افغانی ، پاکستانی اور لبنانی فرقہ ورانہ ملیشیاؤں سے ہے۔ ان ملیشیاؤں نے شامی عوام کے انقلاب کو ایرانی رسوخ کی توسیع کے مفاد میں ایک فرقہ ورانہ تنازع میں بدل ڈالنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔